کیا اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے؟
?Kya Islam Talwar ke zor se faila hai
کیا اسلام تلوار کے زور پھیلا ہے؟
اگر تلوار کے زور سے لوگ اسلام لاتے تو ان کے قلوب (دلوں) پر تلوار کا اثر کیسے ہو جاتا ہے؟
اور دل پر اثر ہو جانے کی دلیل یہ ہے کہ ان کے عادات نہایت پاکیزہ اور شریعت مطہرہ کی تعلیم کے بالکل مطابق ہو گئے تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زرہ کا واقعہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زرہ چوری ہوگئی ہوگئی تھی۔
وہ زرہ ایک یہودی کے پاس ملی، آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھ کر پہچان لیا اور فرمایا کہ یہ میری زرہ ہے، یہودی نے کہا کہ گواہ لاؤ۔
اللہ اکبر! کس قدر آپ نے اسلامی تعلیم کا نمونہ اپنے کو بنالیا تھا کہ جہاں رعایا کو زبان سے آزاد کیا عمل سے بھی دکھلایا کہ ایک یہودی رعایا کی یہ جرأت ہے کہ وہ صاحب سلطنت، خلیفہ المسلمین سے کہتا ہے کہ گواہ لاؤ!
حالانکہ یہود خود ایک ذلیل قوم تھی۔ جب سے انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ سرکشی کی تھی،
اس وقت سے برابر ذلت وخواری ہی کی حالت میں رہے اور اب بھی جہاں میں ذلیل وخوار ہی ہیں۔
کسی نے سچ کہا ہے:
- عزیزی که از در گهش سر تبافت
- بہر در که شد بیچ عزت نیافت
جس عزیز نے بھی اس کے آستانے سے منہ موڑا، وہ جس دروازہ پر گیا تمام عزتوں سے منہ موڑا۔
پس ایک تو اس کی قومی ذلت اور پھر یہ کہ آپ کی قلمرو (حکومت) کا رہنے والا اگر اس پر بھی یہ جرأت ہے،
صاحبو! یہ ہے حقیقی آزادی نہ وہ جو آج کل اختیار کی گئی ہے کہ دین سے نکل گئے،
خدا کو چھوٹا، رسول کو چھوٹا، آزادی یہ ہے کہ کسی صاحب حق کی زبان بند نہ کریں، کسی پر ظلم نہ کریں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ ایک یہودی کا کچھ قرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے تھا۔
ایک روز اس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں آکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کچھ بے باکانہ الفاظ کہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کو دھمکایا،
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ان لصاحب الحق مقالا“ یعنی صاحب حق کو بولنے کا موقع ہوتا ہے۔
تو آزادی یہ ہے کہ حکومت میں رعایا کو اتنا آزاد کریں،
چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے عمل سے اتنا آزاد بنادیا تھا کہ اس یہودی نے کہا کہ گواہ لاؤ یا نالش کرو،
چنانچہ حضرت شریح رضی اللہ عنہ کے یہاں جو اس وقت قاضی تھے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے وقت سے اس عہدہ جلیلہ پر چلے آ رہے تھے، جا کر نالش دائر کی،
دونوں مدعی اور مدعا علیہ بن کر مساوات کے ساتھ عدالت میں گئے۔
حضرت شریح رضی اللہ عنہ نے موافق قاعدہ شریعت کے پوچھنا شروع کیا،
یہ نہیں کہ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے آنے سے ہلچل پڑ جائے،
غرض نہایت اطمینان سے اس یہودی سے پوچھا کہ کیا زرہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہے؟ اس نے انکار کیا، اس کے بعد حضرت رضی اللہ عنہ سے کہا کہ گواہ لائے۔
اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا
Islam Talwar ke zor se nhi faila
حضرت علی اور یہودی کے بارے میں قاضی کا فیصلہ
اللہ اکبر! ذرا آزادی دیکھئے کہ ایک قاضئ سلطنت خود امیر المؤمنین سے گواہ طلب کر رہے ہیں اور امیر المؤمنین بھی حضرت علی رضی اللہ جن پر احتمال دعوئی خلاف واقعہ کا ہو ہی نہیں سکتا تھا،
مگر یہ محض ضابطہ کی بدولت تھا،
واللہ جن لوگوں نے تمدن سیکھا، اسلام سیکھا اور پھر بھی اسلام کے برابر عمل نہ کر سکے۔
غرض حضرت علی رضی اللہ عنہ دو گواہ لائے، ایک امام حسن رضی اللہ عنہ (جو آپ کے صاحبزادے تھے) ایک اپنا آزاد کردہ غلام جن کا نام قنبر تھا۔
حضرت شریح رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ میں یہ مسئلہ مختلف فیہ تھا کہ حضرت شریح رضی اللہ عنہ بیٹے کی گواہ باپ کے حق میں جائز نہ سمجھتے تھے۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں جائز تھی،
اس لیےحضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو پیش کر دیا۔
علمی و اجتہادی اختلاف برا نہیں ہے
آج اختلاف پر علماء کو برا بھلا کہا جاتا ہے، حالانکہ یہ اختلاف پہلے ہی سے چلا آ رہا ہے،
مگر آج کل کی طرح علماء کو برا بھلا کہنا نہ تھا۔
ایک دوسرے کی تکفیر تذلیل نہ کرتے تھے۔
آج کل سب وشتم (گالی گلوچ) کی زیادہ تر وجہ علاوہ نفسانیت کے ایک یہ بھی ہے کہ ہر جگہ اصاغر کی عملداری ہے،
اکابر (بڑے) خود آپس میں ملتے نہیں کہ اصل بات کا پتہ چل سکے جس طرح چھوٹے کہہ دیتے ہیں، اسی کو صحیح سمجھا جاتا ہے،
یہ نہیں کرتے کہ راوی (بیان کرنے والے) کو ڈانٹ دیں۔
غرض حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ مذہب تھا کہ بیٹے کی گواہی معتبر ہے اور شریح رضی اللہ عنہ اس کو نہیں مانتے تھے۔
حضرت شریح رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی گواہی نہیں مانی۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ غلام چونکہ آزاد ہو چکا ہے، اس کی گواہی تو مقبول ہے، مگر بجائے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے کوئی اور گواہ لائیے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اور تو گواہ کوئی نہیں ہے،
آخر حضرت شریح رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دعوی خارج کر دیا۔
قاضی کے فیصلہ پر مسرت
اگر آج کل کے معتقد ہوتے تو حضرت شریح رضی اللہ عنہ سے لڑتے مرتے، لیکن حضرت شریح رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کی طرح مذہب فروش نہ تھے،
وہ مذہب کے ہر امر پر جان فدا کرتے تھے،
اگر حضرت شریح رضی اللہ عنہ سے پوچھا جاتا تو وہ قسم کھا کر کہہ سکتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سچے ہیں،
لیکن چونکہ ضابطہ شریعت اجازت نہیں دیتا تھا، اس لیے آپ نے اپنے عقیدت پر کارروائی نہیں کی۔
یہودی کا قبول اسلام
آخر باہر آ کر یہودی نے دیکھا کہ ان پر تو ذرا بھی ناگواری کا اثر ظاہر نہ ہوا باوجود یکہ آپ اسداللہ ہیں (اللہ کے شیر) بر سر حکومت ہیں،
تو کس چیز نے ان کو برہم نہیں کیا؟
غور کر کے کہا کہ حقیقت میں اب مجھے معلوم ہوا کہ آپ کا مذہب بالکل سچا ہے، یہ اثر اسی کا ہے،
لیجئے ! یہ زرہ آپ ہی کی ہے اور میں مسلمان ہوتا ہوں اور کہتا میں ہوں کہ “اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمداً عبدہ و رسولہ“
اس کے بعد آپ (علی رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ میں نے یہ زرہ تجھی کو دی،
غرض وہ یہودی مسلمان ہو گیا اور آپ ہی کے ساتھ رہا حتی کہ ایک اسلامی لڑائی میں شہید ہو گیا،
اب بتلائیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلوار سر پر دیکھ کر مسلمان ہوا یا اس کو نیام میں دیکھ کر؟
کیا اب بھی یہی کہا جائے گا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے؟
جنت حاصل کرنے اور جہنم سے بچنے کی دعا
السلام علیکم۔
محترم قارئین!
میرا نام محمد نجم الحق ہے، میں ایک اسلامی مدرسہ کا مدرس ہوں۔
میں مدرسہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ آن لائن اسلامی مضامین لکھتے رہتا ہوں تاکہ لوگوں کو صحیح جانکاری حاصل ہو سکے۔
آپ ہمارے ساتھ جڑے رہۓ اور صحیح جانکاری سے فائدہ اٹھائیں۔
اگر آپ کا کسی بھی طرح کا کوئی سوال ہو یا پھر ہماری کسی غلطی کے بارے میں آگاہ کرنا ہو تو ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں، جزاک اللہ خیرا۔